Pages

Saturday 26 March 2022

وضو میں ہر وعضو دھوتے وقت یہ خیال رکھے

 

وضو میں ہر وعضو دھوتے وقت یہ خیال رکھے

 

عبیداختر رحمانی

 

وضو میں ہر عضو دھوتے وقت اپنے وصل اورجدائی کا تصور کرے یعنی تصور کرلے کہ جب وضو کا پانی میرے اعضاسے جداہوتاہے ناپاک ہوجاتاہے اورجب تک اعضاسے ملارہتاہے پاک رہتاہے، اسی طرح جب تک میں خدائے تعالی سے ملارہتاہوں پاک رہتاہوں اورجب جداہوجاتاہوں تو ناپاک ہوجاتاہوں،ذکر کرتے رہنے سے میں خدائے تعالی سے ملارہتاہوں اور ذکر چھوڑدینے سے جداہوجاتاہوں، پس مجھے چاہئے کہ ہمیشہ ذکر میں رہوں ،ورنہ کسی مصیبت میں مبتلاہوجاؤں گا، نیز یہ تصور کرلے کہ جیسے اعضاسے جداہوکر پانی ناپاک ہوجاتاہے اور زمین سے اس کا ملاپ ہوجاتاہے ،اسی طرح خدائے تعالی سے میراملاپ اس کے ذکر سے ہے، اوراس کا ذکر چھوڑدینا گویامیری موت ہے اور اپنے وجود پر نظر دوڑائے کہ مجھے زمین کے ساتھ مل کر اس کی صفت اختیار کرنی چاہئے یعنی جس طرح ہرچیز جو زمین سے باہر آتی ہے، بالکل پاک وصاف ہوتی ہے، اسی طرح مجھ سےبھی جوچیز باہر آئے ،وہ پاک وصاف ہو اور وہ ذکر الہی ہے۔

 

آداب الطالبین،ص:۲۴ حضرت شیخ محمد چشتی گجراتی ؒ خواہر زادہ حضرت شیخ چراغ دہلیؒ

مکمل تحریر اور تبصرے>>

Friday 25 March 2022

ہائے ہم ہندوستانی

 

عبیداختررحمانی


ہم  ہندوستانی دنیا بھر میں اپنے برابر کسی کو نہیں سمجھتے اورعلامہ اقبال کو تو ذہن ہندی پر ناز تھااور پھر سے مومن کو درگاہ حق سے عطاہونے کی امید باندھے بیٹھے تھے، لیکن کتب فقہ میں ہندیوں کی مٹی خوب پلید کی گئی ہے، تجنیس کی تحقیق کے دوران ایک مسئلہ نظرآیا:

ولو قال الهنديّ: اى كداى، فقال: اكر من كدايم فامرأتي طالق، طلّقتْ لأن الهندي يقال له في عرفنا ذلك، وإن كان في عرف الفهلويين هذا اسم الحجام.( تجنيس الملتقط)

یہاں عربی کی نسبت سے ’’کدا‘‘ لکھاگیاہے، ورنہ اصل میں یہ ’’گدا‘‘ہے

سوچاکہ یہ صرف صاحب تجنیس کاخیال ہے، بقیہ حضرات کے یہاں ہندیوں کی کچھ عزت ہوگی ، لیکن جب دیکھاتو وہاں بھی ہندیوں کی اچھی مٹی پلید ہوئی ہے، مثلا دیکھئے ، خدمت کے قابل غلام لڑکے کے بارے میں  کتب فقہ میں سب سے بہتر ترکی اورسب سے ادنی ہندی کو بتایاگیاہے،

ولو تزوجها على وصيف صحت التسمية ولها الوسط من ذلك، ولو تزوجها على وصيف أبيض لا شك أنه تصح التسمية؛ لأنها تصح بدون الوصف فإذا وصف أولى، ولها الوصيف الجيد؛ لأن الأبيض عندهم اسم للجيد ثم الجيد عندهم هو الرومي، والوسط السندي، والرديء ‌الهندي(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع 2/ 283)

ہم ہندیوں سے بہتر تو سندھی ہی ہوئے، کم سے کم وہ اوسط تو ہوئے، اوریہ بھی حیرت کی بات ہے کہ اوسط میں تو بسااوقات ائمہ کے درمیان اختلاف ہے کسی نے سندی تو کسی نے صیقلانی کو بتایاہے لیکن ہندیوں کے ادنی ہونے میں سبھی کا اتفاق ہے۔

ثُمَّ الْجَيِّدُ عِنْدَ أَبِي حَنِيفَةَ الرُّومِيُّ وَالْوَسَطُ السِّنْدِيُّ وَالرَّدِيءُ ‌الْهِنْدِيُّ وَعِنْدَهُمَا الْجَيِّدُ التُّرْكِيُّ وَالْوَسَطُ الصَّيْقَلَانِيُّ وَالرَّدِيءُ ‌الْهِنْدِيُّ (الجوهرة النيرة على مختصر القدوري» (2/ 18)

نوٹ:یہ تحریر صرف تفنن یا خوش طبعی کیلئے لکھی گئی ہے،اس پر سنجیدہ بحث ومباحثہ سے پرہیز کیاجائے توبہتر ہے۔

 

مکمل تحریر اور تبصرے>>

Tuesday 31 October 2017

امام یحیی بن سعیدالقطان اورحنفیت


امام یحیی بن سعید القطان اورحنفیت
رحمانی
بزرگوں کی باتیں بڑے گہرے تجربے پر مبنی ہوتی ہیں ان ہی گہرے تجربہ پر مبنی باتوںمیں سے ایک یہ ہے"ایک من علم کیلئے 10/من دماغ یافہم چاہئے"،بات بڑی گہری حقیقت پر مشتمل ہے ،دسترخوان پر کھاناکم وبیش ہوسکتاہے لیکن انسان کوکھانے میں اپنے ہاضمہ کی قوت کا لحاظ کرناہی پڑتاہے،اگرنہ کرے اورجوکچھ دسترخوان پر ہے سب کو داخل شکم کرنے کی کوشش کرے تو اس کی حالت کیاہوگی؟یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ٹھیک اسی طرح علم کیلئے گہرے فہم کی بھی ضرورت ہے جو علم کوہضم کرسکے، اگرانسان کے پاس علم کو ہضم کرنے کیلئے درکارمقدار میں فہم نہیں ہے تواس کا حال بھی براہوتاہے، یہی وجہ ہے کہ ہم کتب تاریخ وتراجم میں بعض بزرگوں کے ترجمہ میں پاتے ہیں علمہ اکبر من عقلہ یاعلمہ اکثرمن عقلہ وغیرہ ۔

رضامیاں کے ایک مضمون پر ماقبل میں تنقید کی جاچکی ہے،یہ ان کا دوسرامضمون ہے اوراس مضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ امام جرح وتعدیل یحیی بن سعید القطان حنفی نہیں تھے۔

رضامیاں نے تاریخ بغداد سے ایک روایت پیش کی ہے، اس کی سند کو ضعیف بتایاہے، پھر ابن معین کا ایک قول پیش کیاہے اوراس کی روشنی میں کہاہے کہ سابقہ روایت مکذوب اورموضوع ہے،ہم ماقبل میں عرض کرچکے ہیں کہ کسی بھی چیز کو صحیح تناظر میں دیکھنے کیلئے ضروری ہے کہ اس کی مجموعی ہیئت کو پیش نظررکھاجائے ورنہ اس کی مثال اندھوں کے ہاتھی کو ٹٹول کر دیکھنے کی ہوتی ہے۔

امام یحیی بن سعید القطان امام حدیث تھے، اس میں کوئی شک نہیں، فقہ میں بھی ان کامرتبہ بلند تھا،اس میں بھی کوئی شک نہیں، لیکن اس سے حنفی ہونے سے انکار کیسے لازم آسکتاہے یہ میری سمجھ سے باہر ہے، رضامیاں کہتے ہیں :


کیونکہ کسی سے اس کی گنی چنی چیزیں لینا اس بات کا متقاضی ہے کہ وہ چیزیں اس شخص کے نزدیک صحیح اور حق ہوں اور اس لئے وہ ان کی تحسین کرتا ہے۔ اور یہ جاننے کے لئے کہ کیا چیز صحیح اور حق ہے اور کیا نہیں، اس کو خود اجتہاد کرنا پڑے گا!!لہٰذا امام ابن القطان اپنے خود کے اجتہاد کی بنا پر ہی جانتے تھے ،تھے کہ ابو حنیفہ کی یہ یہ چیزیں صحیح اور اچھی ہیں اور اسی لئے وہ ان کی تحسین کرتے اور انہیں خود چن لیتے تھے۔
سوال یہ ہے کہ اتناعلم توہرمتبحر عالم کو ہوتاہے، امام نووی،امام قدوری،امام ابواسحاق اسفرائنی،امام ابن دقیق العید، ابن قدامہ حنبلی وغیرہ کو کیایہ علم نہیں تھاکہ ان کے ائمہ کے کون سےا قوال دلائل کی روشنی میں صحیح اورکون سے اقوال غلط ہیں،اگراسی کے جاننے کا نام اجتہاد ہے توپھر مبارک ہو، شافعی اور نووی ایک برابر ہوگئے، ابن دقیق العید مالکی اورامام مالک میں کوئی فرق نہ رہا، امام قدروی کا مرتبہ امام ابوحنیفہ کے برابرہوگیا اور ابن قدامہ حنبلی کا درجہ امام احمد بن حنبل کے مساوی ہوگیا،اگرمحض اخذ وانتخاب کا نام اجتہاد ہوتاتو پھر احناف میں اصحاب ترجیح علماء سارے کے سارے امام ابوحنیفہ کے مقام ومرتبہ کے ہوتے، شوافع میں اصحاب وجوہ سارے کے سارے امام شافعی کے مرتبہ کے ہوتے۔

رضامیاں نے تاریخ بغداد سے یہ قول نقل کیاہے
لا نكذب الله، ما سمعنا أحسن من رأي أبي حنيفة، وقد أخذنا بأكثر أقواله. قال يحيى بن معين: وكان يحيى بن سعيد يذهب في الفتوى إلى قول الكوفيين، ويختار قوله من أقوالهم
اس کی سند پر ان کا اعتراض یہ ہے
اس سند میں پہلی وجہ ضعف ہے"عبد الرحمن بن عمر بن نصر بن محمد الدمشقی الشیبانی"اور یہ شخص متہم (بالکذب والاعتزال ہے۔(دیکھیں، لسان المیزان: ج 5 ص 116(
ہم نے لسان المیزان بھی دیکھا، میزان الاعتدال بھی دیکھااورتاریخ دمشق کی جانب بھی مراجعت کی ،لیکن سب میں ہمیں یہ قول بصیغہ مجہول ہی ملاکہ ان پر معتزلہ ہونے کی تہمت لگائی گئی ہے اور ابن اسحاق کے لقاء کے سلسلےمیں ان کومتہم کیاگیاہے۔پہلی بات تو یہ ہےکہ اعتزال ہویاقدریاخارجی ہونا،عدالت وضبط میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، اس کے علاوہ نہ جانے کتنے محدث ثابت شدہ قدری تھے، کتنے مرجی تھے، کتنے خارجی تھے ،کتنے ناصبی تھے وغیرذلک؛لیکن اختلاف عقائد کی وجہ سے کسی کی حدیث رد نہیں کی گئی بلکہ اصول حدیث میں یہ بات طے پاگئی کہ اختلاف مسلک وعقیدہ کی وجہ سے راوی کو ترک نہیں کیاجائے گا،اس کے علاوہ ان پر یہ دونوں الزام بصیغہ مجہول منقول ہیں اوریہ معلوم بات ہے کہ مجہول صیغہ سے کسی قول کا ذکر کیاجاناعمومی طورپراس قول کے ضعف کی طرف اشارہ کرتاہے ۔تیسرے ہمیں یہ نہیں معلوم کہ ان پر یہ الزام لگانے والے کون ہیں،معلمی نے تنکیل میں تکلموا فیہ کی جرح اس بنیاد پر رد کردی کہ معلوم نہیں کہ جرح کرنے والے کون ہیں اوریہ جرح جرح مبہم ہے توپھر اس جرح کو یہاں کیسے قبول کیاجاسکتاہے؟

«تكلموا فيه» .أقول: كذا قال ابن يونس ولم يبين من المتكلم ولا ما هو الكلام،(التنکیل2/579)
اس کے بجائے اگررضامیاں یہ اعتراض کرتے کہ ان کی تعدیل کسی سےمنقول نہیں تو شاید یہ کسی درجہ میں کام کی بات ہوتی ۔یہی حال ان کےوالد کاہے تو ایسے راوی جن کی تعدیل نہ ملتی ہو،ان کی وجہ سے روایت ضعیف ہوگی ، من گھڑت اورموضوع کب سے ہونے لگی؟

رضامیاں کا دعویٰ ہے کہ یہ روایت اصل روایت کے مخالف ہے؟ہم لگے ہاتھوں اس کا بھی جائزہ لیتے چلتے ہیں۔رضامیاں یہ روایت نقل کرتے ہیں ۔

لا نكذب اللهربمارأيناالشيءمن رأى أبي حنيفة فاستحسناه فقلنا بهہم اللہ کی تکذیب نہیں کرتے، ہمکبھی کبھارابو حنیفہ کی رائے میں سےکچھ(اچھا) دیکھتے ہیں تو ہم اس کی تعریف کرتے ہیں اور اس کے مطابق کہتے ہیں۔"(تاریخ ابن معین ج 3 ص 517)
اس پر تبصرہ کرتے ہوئے رضامیاں لکھتے ہیں:
اس روایت میں امام القطان کا یہ قول کہ’’ہم ابو حنیفہ کے اکثر اقوال لیتے ہیں‘‘ بھی مذکور نہیں ہے، بلکہ الٹا یہ کہا گیا ہے کہ ہم صرف کبھی کبھار ان کے کچھ اچھے اقوال لیتے ہیں۔اور نہ ہی اس روایت کے آخر میں امام ابن معین کا تبصرہ شامل ہے۔
رضامیاں کااصل استدلال اس قول کے بنیادی کلمہ ’’ربما‘‘پرٹکاہے کہ ربماتقلیل کیلئے آتاہے اوراسی مناسبت سے انہوں نے اس کا ترجمہ کبھی کبھار کیاہے اوراسی بنیاد پر وہ مزید یہ کہتے ہیں:

مزید یہ کہ اس روایت میں امام ابن القطان فرما رہے ہیں کہ اگر "کبھی کبھار" وہ ابو حنیفہ کی رائے میں دلائل کے موافق کوئی اچھی چیز دیکھتے ہیں تو وہ اس کی تحسین کرتے ہیں، نہ کہ یہ کہ وہ ان کےاکثراقواللیتے ہیں۔

توذراہم ربما پر بھی بحث کرلیتے ہیں تاکہ معلوم ہوجائے کہ ربما ہمیشہ تقلیل کےمعنی میں آتاہے یاوہ تکثیر کامعنی بھی دیتاہے۔
ایک نحوی بحث
کلام عرب بلکہ اردو ،ہندی اوردیگرزبانوں میں بھی یہ اسلوب رائج ہےکہ بسااوقات کوئی بات یقینی ہوتی ہے لیکن اس کو کلمہ شک کے ساتھ ذکر کیاجاتاہے ۔مثلاایک لڑکا پڑھائی نہیں کرتاآوارہ گردی کرتاہے آپ اس سے کہتے ہیں ’’اگرتم ایساہی کرتے رہے تو شاید تمہیں ایک دن پچھتاناپرے گا‘‘ہرایک کو معلوم ہے کہ جو پڑھائی کی جگہ آوارہ گردی کرے گا وہ ضرور پچھتائے گا،لیکن اسلوب کلام کی وجہ سے اس کو شاید سے ذکر کیاگیاہے،اس سے کوئی یہ نہیں سمجھتاکہ جوپڑھائی کی جگہ آوارہ گردی کرے گااس کو’’شاید‘‘ پچھتاناپڑے۔

عربی زبان میں رب اورربماکازیادہ تر استعمال تقلیل کےمعنوں میں ہوتاہے لیکن اسے تکثیر کے معنوں میں بھی استعمال کیاجاتارہاہے،قرآن کریم خود اس پر شاہد عدل ہے،ربمایود الذین کفروا،کیاکوئی بھی کہہ سکتاہے کہ ربماکا استعمال یہاں پر تقلیل اورکبھی کبھار کا معنی میں کیاگیاہے؟دیگرماہرین نحو نے بھی اس پر تنبیہ کی ہے کہ رب اورربما تقلیل کے علاوہ تکثیر کیلئے بھی استعمال کیاجاتارہاہے۔

وقد تدخل عليها (ما) فتكفّها عن العمل، فتأتي بعدها المعرِفة، كقولك: (رُبّما زَيْدٌ قائم) .ويأتي بعدها الفعل، كقولك: ( [رُبَّما] 1 يقوم زيد) ، قال اللهُ تعالى: {رُبَّمَا2 يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُواْ} 3.وقد تدلّ على التّكثير(اللمحۃ فی شرح الملحۃ1/259)واختلف النحويون، في معنى رب، على أقوال: الأول: أنها للتقليل. وهو مذهب أكثر النحويين. ونسبه صاحب البسيط،إلى سيبويه. والثاني: أنها للتكثير. نقله صاحب الإفصاح عن صاحب العين، وابن درستويه، وجماعة.(الجنی الدانی فی حروف المعانی1/440)
اتنی گذارش سے یہ بات واضح ہوگئی کہ رب تقلیل کیلئے تکثیر یعنی کثرت کامعنی بتانے کیلئے بھی استعمال کیاجاتاہے،سوال یہ ہے کہ یحیی بن سعید القطان کے کلام میں "ربما"سے تقلیل مراد ہے یاتکثیر مراد ہے؟

ابن سعید القطان کے ربما سے تقلیل مراد ہے یاتکثیر مراد ہے؟

یحیی بن سعید القطان سےجب امام ابوحنیفہ کے تعلق سے پوچھاگیاتوانہوں نے امام ابوحنیفہ کی مخالفت کی فضاعام ہونے کے باوجود اوربصرہ وکوفہ کی علمی چپقلش مشہور ہونے کے باوجود خداکی قسم کھاکر اعتراف کیاکہ ان کو جب کبھی امام ابوحنیفہ کاکوئی قول پسند آتاہے تواسے اختیار کرنے میں دیرنہیں لگاتے۔

رَجُلا سَأَلَ يَحْيَى بْنَ سَعِيدٍ الْقَطَّانَ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ فَمَا تَزَيَّنَ عِنْد من كَانَ عِنْده أَن يذكرهُ بغيرما هُوَ عَلَيْهِ وَقَالَ وَالله إِنَّا اذا استحسنا من قَوْله الشئ أَخَذْنَاهُ
خداکی قسم جب ہم اس کےکسی قول کو پسند کرتے ہیں تواس کو اختیار کرتے ہیں
رجُلا سَأَلَ يَحْيَى بن سعيد الْقطَّان عَن أَبى حنيفَة قَالَ مَا نَتَزَيَّنُ عِنْدَ اللَّهِ بِغَيْرِ مَا يَعْلَمُهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فَإِنَّا وَاللَّهِ إِذَا اسْتَحْسَنَّا من قَوْله الشئ أَخَذْنَا بِهِ (الانتقاء لابن عبدالبرص132اسنادہ حسن)
ان دورایات سے اتنامعلوم ہواکہ امام ابن قطان کو جب امام ابوحنیفہ کی کوئی بات اچھی لگتی تو اسے اختیار کرلیتے تھے ،ایک دوسری معتبر روایت سے معلوم ہوتاہے کہ ابن قطان کے نزدیک امام ابوحنیفہ کی محض ایک بات معیوب تھی اوران کے بعض اقوال پران کو انکار تھا۔

حافظ ابن عبدالبر بسند حسن روایت کرتے ہیں۔

قَالَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ أريتم إِنْ عِبْنَا عَلَى أَبِي حَنِيفَةَ شَيْئًا وَأَنْكَرْنَا بَعْضَ قَوْلِهِ أَتُرِيدُونَ أَنْ نَتْرُكَ مَا نَسْتَحْسِنُ من قَوْله الذى يوافقنا عَلَيْهِ(الانتقاء لابن عبدالبرص132)
یحیی بن سعید القطان کہتے ہیں تم کیاسمجھتے ہو ،اگرہم ابوحنیفہ کو ایک چیز میں معیوب ٹھہراتےہیں اوران کے بعض اقوال پر انکار کرتے ہیں توکیاتم یہ چاہتے ہیں کہ ان کے جس قول کو ہم بہترسمجھتےہیں اورجس میں وہ ہماری مواقفت کرتے ہیں اس کو بھی ہم چھوڑدیں۔
اس قول میں یحیی بن سعید القطان صاف صاف کہہ رہے ہیں کہ ان کو امام ابوحنیفہ کے محض بعض اقوال پر اعتراض ہے بیشتر اقوال پر اعتراض نہیں ہے۔

اب آپ صغری کبری ملاکر نتیجہ مرتب کرلیں امام ابوحنیفہ کی جوبات اچھی لگتی تھی اسے اختیار کرتے تھے ،امام ابوحنیفہ کی محض کچھ باتیں ان کے نزدیک قابل اعتراض تھیں ورنہ بقیہ ساری باتیں ان کے نزدیک اچھی تھیں،نتیجہ یہی نکلاناکہ امام ابوحنیفہ کی بیشتر باتیں اچھی باتیں اوربیشتر باتوں کو وہ اختیار کرتے تھے ۔
ربما کی جگہ" کم" کا لفظ
قرآن کریم کی تفسیر میں سب سے پہلے یہ دیکھاجاتاہے کہ کہیں کسی دوسری آیت میں مزید وضاحت تونہیں ہے،اگرکسی دوسرے مقام پر اللہ نے مزید وضاحت کردی ہے تو اس سے زیادہ معتبر تفسیر کوئی اورنہیں،حتی کہ قران کی وہ قرائتیں کو خبرآحاد سے ثابت ہیں، ان سے بھی تفسیر قرآن کا کام لیاجاتاہے، حدیث کے باب میں بھی یہی دیکھاجاتاہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کسی ارشاد کی بذات خود توضیح اورتشریح کردی ہے تواس سے معتبر تشریح اورکچھ نہیں،حتی کہ حدیث کی تفسیر میں ضعیف حدیث کو بھی تفسیر وتشریح کیلئے گواراہ کیاجاتاہے کیونکہ بہرحال وہ بھی کسی نہ کسی درجہ میں قیاس آرائی سے بہتر ہے۔
ان نظائر کو ملحوظ رکھتے ہوئےاگرہم یحیی بن سعید القطان کے کلام میں ربما کی تفسیر تقلیل یاتکثیر کے معنوں میں خود ابن قطان کے کلام سے کریں تو شاید اس سے زیادہ بہتر اورکچھ نہ ہوگا۔
اخْبَرَنَا الجوهري، قَالَ: أَخْبَرَنَا عبد العزيز بن جعفر الخرقي، قَالَ: حَدَّثَنَا هيثم بن خلف الدوري، قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَد بن منصور بن سيار، قال: سمعت يحيى بن معين، يقول: سمعت يحيى بن سعيد، يقول: كم من شيء حسن قد قاله أَبُو حنيفة. (تاریخ بغداد15/473سندہ حسن)
اس روایت میں بھی "کم"کے لفظ کے ساتھ کہاگیاہے کہ امام ابوحنیفہ نے بہت سی اچھی باتیں کہی ہیں۔
الانتقاء میں ایک روایت ہے۔
نا مُحَمَّد بن على السامرى المقرى قَالَ نَا أَحْمَدُ بْنُ مَنْصُورٍ الرَّمَادِيُّ قَالَ سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ مَعِينٍ يَقُولُ سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ سَعِيدٍ يَقُولُ لَا نَكْذِبُ اللَّهَ عَزَّ وَجل كم من شئ حسن قَالَه أَبُو حنيفَة وَرُبمَا استحسنا الشئ مِنْ رَأْيِهِ فَأَخَذْنَا بِهِ، قَالَ يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ وَكَانَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ يَذْهَبُ فِي الْفَتْوَى مَذْهَبَ الْكُوفِيِّينَ
کتنی ہی اچھی باتیں ہیں جو ابوحنیفہ نے کہی ہیں اوربسااوقات ہم کو ان کی رائے اچھی لگتی ہے توہم اس کو اختیار کرتے ہیں۔
اس جملہ میں غورکرنے کی بات یہ ہے کہ پہلے لفظ"کم "کااستعمال ہوا،جو تکثیر کامعنی دیتاہے اورپھر فوراًہی بعد ربما کا استعمال ہوا جو اکثرتقلیل کا معنی دیتاہے،یہاں پر لفظ کم بتارہاہے کہ ان کی اچھی باتیں بہت سی ہیں اور ربما سے اس کے اخذ کرنے کی بات بتارہی ہے کہ ربما بھی یہاں پر تکثیر کے معنی میں ہے تقلیل کے معنی میں نہیں ہے کیونکہ ماقبل میں یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ جب امام ابوحنیفہ کی کوئی بات ابن قطان کو اچھی لگتی تھی تواسے اختیار کرلیتے تھے لہذا جب ابن قطان کو امام ابوحنیفہ کی بیشتر باتیں اچھی لگی توانہوں نے بیشتر باتوں کو ہی اختیار کیاہوگا۔

یہ روایت اگرچہ ضعیف ہے اورضعف کی وجہ یہ ہےکہ مجھ کو محمد بن علی السامری المقری کی پہچان نہیں ہوسکی،لیکن اس کی تائید ابن ابی العوام کی فضائل ابی حنیفہ سے ہوتی ہے۔

حدثني محمد بن أحمد بن حماد قالا: ثنا أحمد بن منصور الرمادي قال: سمعت يحيى بن معين قال: سمعت يحيى بن سعيد القطان يقول: لا نكذب الله، كم من شيء حسن قد قاله أبو حنيفة.(فضائل ابی حنیفۃ واخبارہ 1/200)
اسی روایت کو محض تھوڑے سے فرق کے ساتھ ابن عدی بسند حسن روایت کرتےہیں
سمعتُ ابْن حماد، حَدَّثَنا أَحْمَد بْن مَنْصُور الرمادي سَمِعت يَحْيى بن مَعِين يقول: سَمعتُ يَحْيى بْن سَعِيد القطان لا نكذب اللَّه ربما سمعنا الشيء من رأي أبي حنيفة فاستحسناه فأخذنا بِهِ.قال يَحْيى بْن مَعِين وكان يَحْيى بْن سَعِيد يذهب فِي الفتوى إِلَى مذهب الكوفيين.الکامل فی الضعفاء8/240
ان تمام روایات سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ لفظ "ربما"کو"کم"کے معنی میں استعمال کیاگیاہے۔اوراسی کے ساتھ ایک مزید قابل غوربات یہ ہے کہ ان تمام روایات میںیحیی بن معین صاف صاف کہہ رہے ہیں کہ یحیی بن سعید القطان فتوی دینے میں کوفیوں کے مسلک کی پیروی کرتے تھے اوریہ ظاہر سی بات ہے کہ کوفہ کی سب سے بڑی فقہی شخصیت حضرت امام ابوحنیفہ کی تھی۔
ایک اوردلیل
أخبرنَا عمر بن إِبْرَاهِيم قَالَ أنبأ مكرم قَالَ أنبأ عَليّ بن الْحُسَيْن بن حبَان عَن أَبِيه قَالَ سَمِعت يحيى بن معِين قَالَ مَا رَأَيْت أفضل من وَكِيع بن الْجراح قيل لَهُ وَلَا ابْن الْمُبَارك قَالَ قد كَانَ لإبن الْمُبَارك فضل وَلَكِن مَا رَأَيْت أفضل من وَكِيع كَانَ يسْتَقْبل الْقبْلَة ويحفظ حَدِيثه وَيقوم اللَّيْل ويسرد الصَّوْم ويفتي بقول أبي حنيفَة وَكَانَ قد سمع مِنْهُ شَيْئا كثيرا قَالَ يحيى بن معِين وَكَانَ يحيى بن سعيد الْقطَّان يُفْتِي بقول أبي حنيفَة أَيْضا
 (اخبارابی حنیفۃ واصحابہ 155)
یہاں دیکھنے کی بات یہ ہے کہ "یفتی "عام ہے،یعنی عام حالات وواقعات میں امام ابوحنیفہ کے قول پر یحیی بن سعید القطان فتویٰ دیاکرتے تھے جس سے مزید اس بات کی تائید ہوتی ہےکہ یحیی بن سعید القطان کے اکثراقوال اختیار کرتے تھے اوراس پر فتوی دیتے تھے۔
اس سند پر وکیع والے تھریڈ میں بحث ہوچکی ہے۔اسے دوبارہ نقل کردیتاہوں۔
’’مضمون نگار کے قول کے مطابق پوری سند درست ہے محض علی کے والد حسین کے حالات نامعلوم ہیں یادوسرے لفظوں میں مجہول ہیں،اورمضمون نگارکے اعتراف کے مطابق اس شخص کے حالات توملتے ہیں مگر عدل وضبط کے تعلق سے کوئی بات نہیں ملتی ،اگرمضمون نگار تھوڑاغورکرتے توان کو معلوم ہوتا کہ بعض محدثین نے اس سند سے احادیث تک کو قبول کیاہے، کیاابن حبان اورابن خزیمہ کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم کہ وہ ایسے راوی کے روایت قبول کرلیتے ہیں جن کے اوپر اورنیچے ثقہ راوی ہو اگرچہ اس درمیان والے راوی کےحالات نامعلوم ہوں، ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس روایت کی سند ابن حبان اورابن خزیمہ کی شرط کے مطابق درست ہے۔دوسرے انہیں غورکرناچاہئے کہ ایک شخص جتنااپنے والد سے واقف ہوتاہے اتناکوئی دوسرانہیں ہوتا تواگر علی نے جوثقہ ہیں اپنے والد کی روایت کو قبول کیاہے تو اس کی کچھ وجہ ہوگی ‘‘۔
 مزید تائید
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ حافظ ذہبی،حافظ ابن کثیر،عبدالرحمن معلمی وغیرہ حنفی نہیں ہیں، احناف کے طرفدار بھی نہیں ہیں،اس کے علاوہ انہوں نے اس روایت کو بلاکسی ردوکد کے ذکر کیاہے۔
حافظ ذہبی نے سیر اعلام النبلاء ،تاریخ الاسلام اور مناقب ابی حنیفہ وصاحبیہ میں یہ روایت نقل کی ہے۔

وقال يحيى بن سعيد القطان: لا نكذب الله، ما سمعنا أحسن من رأي أبي حنيفة، وقد أخذنا بأكثر أقواله.
حافظ ابن کثیرنے یہی روایت امام ابوحنیفہ کےتذکرہ میں التکمیل فی الجرح والتعدیل میں نقل کی ہے،اسی روایت کو خلاصۃ تذہیب تھذیب الکمال کے مصنف نے بھی نقل کیاہے،اسی روایت کو حافظ ابن حجرنے تہذیب التہذیب میں نقل کیاہے،اسی روایت کو علامہ صفدی نے الوافی بالوفیات میں نقل کیاہے،اسی روایت کو امام بخاری کی التاریخ الکبیر کے حاشیہ میں معلمی نے امام بخاری کی جرح کے جواب میں نقل کیاہے۔

ان میں سے کوئی حنفی نہیں ہے، بیشترشافعی ہیں ،حنفیوں اورشافعیوں کی چپقلش علم وقضاء کے باب میں مشہور رہی ہے،اس کے باوجود یہ اکابر علماء شوافع بغیر کسی ذہنی تکدر اورانقباض خاطر یہ روایت امام ابوحنیفہ کے مناقب میں نقل کرتے چلے آئے ہیں، کسی ایک کے بھی ذہن میں وہ سب بے سروپااعتراضات آئے نہیں جو محدث فورم کے نوجوان ممبر رضامیاں کے ذہن میں آئے ہیں۔

معلمی کو کون حنفی یاحنفیوں کا طرفدار کہے گا، کوثری کی مخالفت میں وہ بسااوقات دوسری انتہاء پر چلے گئے ہیں، اس کےباوجود ان کا امام ابوحنیفہ کی جانب سے دفاع کرنا اورامام ابوحنیفہ کی اس روایت کو امام بخاری کی جرح کے تاثر کوزائل کرنے کیلئے حاشیہ میں لکھنا کیاثابت کرتاہے؟

اس مضمون سے اتنی باتیں ثابت ہوگئیں
(1)یحیی بن سعید القطان کو امام ابوحنیفہ کی بیشتر باتیں اچھی لگتی تھی
(2)امام ابوحنیفہ کی جوبات ان کو اچھی لگتی تھی ان کو اختیارکرلیتے تھے
(3)امام ابوحنیفہ کی بیشتر باتوں کواختیار کرتے تھے اوراس پرفتویٰ دیتے تھے
ایک اعتراض کا جواب
ابن ابی حاتم نے ایک روایت ذکر کی ہے۔
امام علی بن عبد اللہ المدینی روایت کرتے ہیں کہا امام یحیی بن سعید القطان نے فرمایا:
مر بي أبو حنيفة وأنا في سوق الكوفة، فلم أسأله عن شيء وكان جاري بالكوفة فما قربته ولا سألته عن شی
 ابو حنیفہ میرے پاس سے گزرے جب میں کوفہ کی ایک مارکیٹ میں تھا، تو میں نے ان سے کسی بھی چیز کے بارے میں نہیں پوچھا، وہ کوفہ کی طرف جا رہے تھے تو میں نے نہ ان کا ساتھ دیا اور نہ ہی ان سے کچھ بھی پوچھا۔ (الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم ج 8 ص 450 واسنادہ صحیح)
اس روایت سے ابن ابی حاتم نےیہ تاثر دینے کی کوشش کی ہےکہ یحیی بن سعید القطان نے امام ابوحنیفہ سے کسی طرح کا کوئی علمی غیرعلمی استفادہ نہیں ،حالانکہ یہ بات سرے سے غلط ہے، یحیی بن معین کایہ قول خود رضامیاں برضاورغبت نقل کرچکے ہیں کہ ابن قطان کبھی کبھار امام ابوحنیفہ کے اقوال پسند آنے پر اختیار کرتے تھے۔
ان صحیح اورحسن روایات سے یہ بات بھی صاف ہوجاتی ہے کہ ابن ابی حاتم کی یہ روایت کہ ابن قطان نے امام ابوحنیفہ سے کوئی استفادہ نہیں کیا،غلط محض ہے۔ابن قطان اپناطرزعمل یہ پیش کررہےہیں کہ جب کبھی ان کو امام ابوحنیفہ کا قول پسند آتاتووہ اسے اختیا رکرنے میں دیر نہ کرتے۔اورامام ابوحنیفہ کی بہت سی باتیں ان کو پسند آئیں ،صرف پسند ہی نہیں آئیں،ان کو اختیار کیااوراس کے مطابق سائلین کو فتویٰ دیا۔

سوال یہ ہےکہ علمی استفادہ اسی کاتونام ہےکہ کسی کے اقوال میں غوروفکر کیاجائے، دلائل کے لحاظ سے اقوال کی جانچ پرکھ کی جائےاورپسندیدہ اقوال کو اختیار کیاجائے، امام محمد بن الحسن اورامام ابویوسف کابھی طرزعمل امام ابوحنیفہ کے اقوال کے ساتھ یہی تھا کہ جوقول پسند آتااسے اختیار کرتے اورجو قول ان کی نگاہ میں دلائل کے لحاظ سے مرجوح ہوتا،اسے اختیار نہ کرتے۔
علی بن المدینی کا قول اوروضاحت
امام علی بن عبد اللہ المدینی اپنے استاد کا مذہب بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
ومن بعد سفيان يحيى بن سعيد القطان كان يذهب مذهب سفيان الثوري وأصحاب عبد الله
اور سفیان (الثوری) کے بعد آئے یحیی بن سعید القطان جنہوں نے سفیان الثوری اور سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے اصحاب کے مذہب کی پیروی کی۔"(العلل لابن المدینی: ص 44)
امام یحیی بن سعید القطان کے شاگرد صرف علی بن مدینی نہیں ہیں، بلکہ امام ابن معین بھی ان کے قریبی شاگرد ہیں،اوران کا کہنایہ ہے کہ وہ امام ابوحنیفہ کے قول پر فتویٰ دیتے تھے ،اورخود اپنے استاد کا قول یہ نقل کرتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ کی اچھی رائے اختیار کرتے تھے،امام ابوحنیفہ کی بہت سی رائے ان کو اچھی لگتی تھی ،امام ابوحنیفہ کے بعض اقوال ہی ان کو اعتراض تھا،ظاہر سی بات ہے کہ علی بن مدینی کے قول کے مقابلہ میں یحیی بن سعید القطان کا اپناقول زیادہ معتبر ہوگا۔
رضامیاں لکھتے ہیں:

بعض مقلدین کسی امام کے فقیہ ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ اس بات سے کرتے ہیں کہ امام ترمذی نے اپنی سنن میں فقہاء کے مذہب بیان کرتے ہوئے ان کا نام لیا ہے یا نہیں! اور اسی بنا پر انہوں نے امام بخاری جو سید الفقہاء ہیں ان کو بھی فقہاء کی لسٹ سے نکالنے کی کوشش کی ہے کیونکہ امام ترمذی نے ان کے اقوال کو بیان نہیں کیا۔ تو عرض ہے کہ امام ترمذی نے سنن الترمذی میں امام یحیی القطان کا نام فقہاء کے درمیان ذکرکیا ہے۔
بعض مقلدین دراصل غیرمقلدین کے پروپیگنڈہ کا جواب دیناچاہتے ہیں اگرامام ابوحنیفہ کی روایت کتب حدیث میں نہیں ہے تو وہ علم حدیث سے نابلد ٹھہرے،اگرامام بخاری کے مسائل کا ذکر خود ان کے شاگرد،دیگرمحدثین اورکتب فقہ پر علماء کی آراء ذکرکرنے والے نہ لکھیں تو اس کو کیاسمجھاجائے؟یہ ہے اصل بات۔
آپ تقصیر الصلاۃ بمنی کے موضوع پر فقہاء کے مذاہب بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: وَهُوَ قَوْلُ ابْنِ جُرَيْجٍ، وَسُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ،وَيَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ القَطَّانِ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاقَ
اس سے ہمارے موقف پر کوئی اثرنہیں پڑتا کیونکہ ہم پہلے سے یہ بات کہتے چلے آرہے ہیں کہ امام یحیی بن سعید القطان مجتہد تھے، ہم نےکبھی نہیں کہاکہ وہ مقلد تھے،جیسے امام ابویوسف اورامام محمدمجتہد تھے،امام ابوحنیفہ کےمقلد نہیں تھے پھر بھی دنیا ان کو فقہ حنفی سے وابستہ کرتی ہے،ہم بھی فقہ حنفی سے ان کووابستہ تسلیم کرتے ہیں،باوجود اس کے متعدد مسائل میں انکا امام ابوحنیفہ سے اختلاف واضح ہے،اسی طرح وکیع اور یحیی بن سعید القطان کے معاملہ کوبھی سمجھناچاہئے۔
مکمل تحریر اور تبصرے>>

Wednesday 18 October 2017

امام عیسی بن ابانؒ:حیات وخدمات قسط نمبر۳

صنیفات وتالیفات: قضاء کی ذمہ داریوں اوردرس وتدریس کی مصروفیات کے ساتھ ساتھ انہوں نے تصنیف وتالیف کی خدمات بھی انجام دی ہیں،اوربطورخاص اصول فقہ میں گرانقدر اضافہ کیاہے،ان کے تقریباًتمام ہی ترجمہ نگاروں نے ان کے نام  کے ساتھ ’’صاحب التصانیف‘‘کااضافہ کیاہے،جس سے پتہ چلتاہے کہ وہ تصنیف کے لحاظ سے بہت مشہور تھے اوران کی تصانیف کی خاصی تعداد رہی ہوگی، اصول فقہ کے مختلف موضوعات پر انہوں نے مستقل کتابیں لکھی ہیں،مختلف مصنفین جنہوں نے ان کی تصنیفات کا فہرست دی ہے، ہم اس کا ذکر کرتے ہیں۔
1:        کتاب الحجۃ                
2:       کتاب خبر الواحد
3:       کتاب الجامع
4:       کتاب اثبات القیاس
5:       کتاب اجتہاد الرائے
(الفہرست لابن الندیم)
امام جصاص رازی درج ذیل کتاب کا اضافہ کیاہے:
 6:      الحجج الصغیر                   (الفصول فی الاصول۱؍۱۵۶)
صاحب ہدیۃ العارفین نے درج ذیل کتابوں کا اضافہ کیاہے۔
7:     الحجة الصغيرة في الحديث.(اس کاپتہ نہیں چلاکہ آیا یہ وہی الحجج الصغیر ہے جس کا تذکرہ جصاص رازی نے کیاہے یاپھر الگ  سے کوئی اورکتاب ہے)
8:     كتاب الجامع في الفقه.
9:     كتاب الحج.
10:   كتاب الشهادات.
10:   كتاب العلل.
11:   في الفقه.
(هدية العارفين أسماء المؤلفين وآثار المصنفين۱؍۸۰۶،دار إحياء التراث العربي بيروت – لبنان)
گیارہویں نمبرپر موجود کتاب کانام معجم المولفین میں ’’العلل فی الفقہ ہے اور شاید یہی زیادہ صحیح بھی ہے۔(۸؍۱۸،مکتبۃ المثنی ،بیروت)
12:      الحجج الکبیر فی الرد علی الشافعی القدیم:اس کتاب کا تذکرہ علامہ زاہدالکوثری نے کیاہے۔اس کے علاوہ علامہ لکھتے ہیں :
اس کےعلاوہ عیسی بن ابان نے ایک کتاب حدیث قبول کرنے کی شروط کے سلسلہ میں مریسی اور شافعی کےرد میں بھی لکھی، عیسی بن ابان نے اپنی کتابوں میں وہی اصول بیان کئے امامام محمد سے جن کی تعلیم انہوں نے حاصل کی تھی۔(’’سیرت امام محمد بن الحسن الشیبانی ،اردو ترجمہ بلوغ الامانی فی سیرت الامام محمد بن الحسن الشیبانی،ص ۲۰۷)
کتابوں کے نام سے اندازہ ہوتاہے کہ انہوں نے اپنے دور میں محدثین اوراہل فقہ کے درمیان جن مسائل میں شدید اختلافات تھے ان پر قلم اٹھایاہے۔مثلاکتاب اثبات القیاس،بعض شدت پسند ظاہری محدثین کا موقف تھاکہ قیاس کرناصحیح نہیں اوروہ شرعی دلیل نہیں ہے،اس کی تردید میں یہ کتاب لکھی گئی ہوگی،اسی طرح اس زمانے میں محدثین جہاں ایک طرف خبرواحد کو قطعی اوریقینی دلیل مانتے تھے دوسری جانب معتزلہ اوردیگرگمراہ فرقے خبرواحد کی اہمیت کم کررہے تھے، ایسے عالم میں انہوں نے خبرواحدپر قلم اٹھایااوراحناف کا موقف سامنے رکھا۔
الحجج الصغیر:عیسی ٰ بن ابان کی دیگر کتابوں کی طرح یہ کتاب بھی ناپید ہے لیکن خوش قسمتی  سےاب امام جصاص رازی کی ’’الفصول فی الاصول ‘‘طبع ہوکر آگئی ہے، اس کے مطالعہ سے ایسامحسوس ہوتاہے کہ گویا امام جصاص کی یہ کتاب الحجج الصغیر کی شرح یااس کا بہتر خلاصہ ہے۔تقریباتمام مباحث میں انہوں نے الحجج الصغیر سے استفادہ کیاہے اورالاماشاء اللہ ایک دومقامات کو چھوڑکر ہرجگہ وہ عیسی بن ابان کے ہی موقف کے حامل نظرآتے ہیں،گویااس کتاب کے واسطہ سے براہ راست نہ سہی؛ لیکن بہت قریب سے ہم عیسی بن ابان کے نظریات وخیالات سے واقف ہوسکتے ہیں۔ صاحب کشف الظنون حاجی خلیفہ اس کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں:
وحجج عيسى بن أبان أدق علماً، وأحسن ترتيباً من كتابي المزني.(کشف الظنون ۱؍۶۳۲، مکتبۃ المثنی،بغداد)
اورعیسی بن ابان کی حجج(شاید الصغیر مراد ہو) علم کی باریکی اور ترتیب کے حسن کے لحاظ سے مزنی کی دونوں کتابوں سے بہتر ہے۔اسی کتاب میں عیسی بن ابان نے اپناوہ مشہور نظریہ دوہرایاہے جس کی بنیاد پر احناف آج تک مخالفین کے طعن وتشنیع کے شکار ہیں کہ حضرت ابوہریرہ ؓ فقیہ نہیں تھے اور ان کی وہ روایت جو قیاس کے خلاف ہوگی رد کردی جائے، راقم الحروف نے اس پر ایک طویل مضمون لکھاہے، جس میں عیسی بن ابانؒ اور بعد کے علماء جنہوں نے عیسی بن ابان کی رائے اختیار کی ہے، ان کے حوالوں سے بتایاہےکہ عیسی بن ابان کی یہ رائے مطلق نہیں ہے بلکہ تین یاچارشرطوں کے ساتھ مقید ہے اوراگران شرائط کالحاظ وخیال رکھاجائے توپھر عیسی بن ابان اوردوسروں کےنظریہ میں اختلاف حقیقی نہیں بلکہ محض لفظی بن کر رہ جاتاہے۔
کتاب الحجج کی تصنیف:اس کی تصنیف کا ایک دلچسپ پس منظر ہے،وہ یہ کہ مامون الرشید کے قریبی رشتہ دار عیسی بن ہارون ہاشمی  نے کچھ احادیث جمع کیں اوران کومامون الرشید کے سامنے پیش کیا اورکہاکہ احناف جوآپ کے دربار میں اعلیٰ مناصب اور عہدوں پر مامور ہیں ،ان کا عمل اورمسلک وموقف ان احادیث کے خلاف ہے اوریہ وہ حدیثیں جس کو ہم دونوں نے اپنے عہد تعلیم میں محدثین کرام سے سناہے ، یہ بات سن کر عیسی بن ابان نے اپنے دربار کے حنفی علماء کو اس کا جواب لکھنے کیلئے کہا؛لیکن انہوں نے جوکچھ لکھا وہ مامون کو پسند نہ آیا،  یہ دیکھ کرعیسی بن ابان نے کتاب الحجج تصنیف کی جس میں انہوں بتایاکہ کسی روایت کو قبول کرنے اورنہ کرنے کا معیار کیاہوناچاہئے اوراس میں انہوں نے امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کے مسلک کے دلائل بھی بیان کئے۔ جب مامون الرشید نے یہ کتاب پڑھی توبہت متاثرہوااوربے ساختہ کہنے لگا۔

حسدوا الفتى إذا لم ينالوا سعيه                               فالنّاس أعداءٌ له وخصوم
كضرائر الحسّناء قلن لوجهها                         حسداً وبغياً إنّه لذميم
کسی بھی باصلاحیت ادمی کا جب مقابلہ نہیں کیاجاسکتاتولوگ اس سے حسد کرنے لگتے ہیں اوراس کے دشمن بن جاتے ہیں جیساکہ خوبصورت عورت کی سوتنیں محض جلن میں کہتی ہیں کہ وہ تو بدصورت ہے(بحوالہ تاج التراجم227/تاریخ الاسلام للذہبی 16/320)اس واقعہ کو سب سےز یادہ تفصیل کے ساتھ صیمری نے اخبارابی حنیفۃ واصحابہ میں بیان کی ہے۱؍۱۴۷)
تصنیفات کے باب میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ عیسی بن ابان نے ایک کتاب بطور خاص امام شافعی کے رد میں لکھی تھی[1]، اس کتاب کے بارے میں تاریخ بغداد کی روایت کے مطابق داؤد ظاہری اور اخبارالقضاۃ کے مصنف قاضی کا الزام ہے کہ انہوں نےاس کتاب کی تصنیف میں سفیان بن سحبان[2] سے  احادیث کے سلسلے میں مدد لی تھی، قاضی وکیع لکھتے ہیں:وقيل لي إن الأحاديث التي ردها على الشافعي أخذها من كتاب سُفْيَان بْن سحبان(اخبارالقضاۃ لوکیع:۲؍۱۷۱)’’مجھ سے کہاگیاہے کہ وہ احادیث جو عیسی بن ابان نے امام شافعی کے رد میں اپنی کتاب میں لکھی لکھی ہیں، سفیان بن سحبان کی کتاب سے ماخوذ ہے‘‘۔اورداؤد ظاہری سے جب عیسی بن ابان کی کتاب کا جواب دینے کیلئے کہاگیاتوانہوں نے کہاکہ عیسی بن ابان کی اس کتاب کی تصنیف میں  ابن سختان [3]نے مدد کی ہے۔(تاریخ بغداد۶؍۲۱،دارالکتب العلمیۃ)
جب کہ حقیقت یہ ہے کہ عیسی بن ابان پر اس سلسلے میں ابن سحبان سے مدد لینے کا الزام ایک غلط الزام ہے اوراس کی تردید خود عیسی بن ابان نے کی ہے،ایسامحسوس ہوتاہے کہ ان کی زندگی میں ہی یہ چہ میگوئیاں ہونے لگی تھیں کہ ان کی فلاں تصنیف ابن سحبان کی اعانت کا نتیجہ ہے، کسی نے جاکر پوچھ لیاتوانہوں نے بات واضح کردی اوریہ بات بھی واضح ہوگئی کہ وہ کون سی کتاب ہے:
قال أبو خازم: فسمعت الصريفيني شعيب بن أيوب يقول: قلت لعيسى ابن أبان: هل أعانك على كتابك هذا أحدٌ؟ قال: لا، غير أني كنت أضع المسألة وأناظر فيها سفيان بن سختيان. ( فضائل أبي حنيفة وأخباره ومناقبه ۱؍۳۶۰، الناشر: المكتبة الإمدادية - مكة المكرمة)
ابوخازم کہتے ہیں ،میں نے شعیب بن ایوب کو یہ کہتے سناکہ میں نے عیسی بن ابان سے پوچھاکہ اس کتاب (کتاب الحجج)کی تصنیف میں کیاکسی نے آپ کی مدد کی ہے، فرمایاکہ نہیں،ہاں اتنی سی بات تھی کہ میں اولا ًمسئلہ کو لکھ لیتاتھا پھر اس کےبعد اس بارے میں سفیان بن سختیان [4]سے مناظرہ کرتاتھا۔

عیسی بن ابان کے ناقدین:
ہرصاحب تصنیف جو مجتہدانہ فکر ونظر کا مالک ہو،ہرمسئلہ میں جمہور کے ساتھ نہیں چلتا بلکہ بسااوقات وہ اپنی راہ الگ بناتاہے بقول غالب’’ہرکہ شد صاحب نظر دین بزرگاں خوش نکرد‘‘امام عیسی بن ابان کے بھی بعض نظریات وخیالات ایسے ہیں جن سے جمہور اتفاق نہیں کرتے اور جن پر ان کے معاصرین اوربعد والوں نے تنقید کی ہے۔ان پر جن لوگوں نے تنقید کی ہے، ان کا مختصر جائزہ پیش خدمت ہے۔
امام طحاوی:آپ کے سوانح نگاروں نے آپ کی تصنیفات کے ضمن مین ایک کتاب کا ذکرکیاہے جس کا نام ’خطاالکتب‘ ہے،اس میں شاید ایک باب یاکوئی خاص فصل عیسی بن ابان کے رد میں ہے۔‘‘(الجواہر المضئیۃ فی طبقات الحنفیۃ ۱؍۱۰۴)
ابن سیریج :مشہور شافعی فقیہ ہیں، ان کے حالات میں ترجمہ نگاروں نے لکھاہے کہ انہوں نے ایک کتاب عیسی بن ابان کے فقہی آراء کے رد میں لکھی ہےوله رد على عيسى بن أبان العراقي في الفقه(موسوعۃ أقوال أبي الحسن الدارقطني في رجال الحديث وعلله۱؍۷۶،عالم الکتب للنشر والتوزیع)
اسماعیل بن علی بن اسحاق:آپ نے بھی ایک کتاب عیسی بن ابان کے رد میں لکھی ہے،جس کا نام ہے’’ النقض على مسألة عيسى بن أبان في الاجتهاد، مصنف کا تعلق شیعہ سے فرقہ سے ہے ۔ (لسان المیزان۱؍۴۲۴) کتاب کے نام سے ایسامحسوس ہوتاہے کہ عیسی بن ابان علیہ الرحمہ کی جوکتاب الاجتہادفی الرائےہے، یہ کتاب اسی کی تردید میں لکھی گئی ہے۔
خلق قرآن کے موقف کاالزام اور حقیقت
امام عیسی بن ابان پر سب سےبڑااورسنگین الزام خلق قران کے عقیدہ کے حامل ہونے کاہے،یہ الزام مشہور شافعی محدث حافظ ابن حجرنے لگایاہے،(اگرچہ حافظ ابن حجر سے پہلے بھی کچھ لوگوں نے خلق قرآن کے موقف کا الزام لگایاہے لیکن انہوں نے قیل کے ساتھ یہ بات کہی ہے یادیگرصیغہ تمریض کے ساتھ  )حافظ ابن حجر کے تعلق سے اگرچہ متعدد احناف کو شکایت رہی ہے کہ وہ احناف کے ترجمہ میں اس فیاضی اور دریادلی کا مظاہرہ نہیں کرتے جو شوافع کے ساتھ برتتے ہیں، ان شکوہ وشکایات سے قطع نظر خلق قرآن یادوسری کسی بھی جرح کے ثبوت کیلئے کچھ پیمانے ہیں، پہلا پیمانہ یہ ہے کہ جو امام جرح وتعدیل کسی راوی پر کوئی جرح کررہاہے، اس علم جرح وتعدیل کے ماہر تک صحیح سند سے یہ جرح ثابت ہو ،دوسراپیمانہ یامعیار یہ ہے کہ یہ جرح بادلیل ہو، تیسرا معیار یہ ہے کہ جس پر الزام لگایاجارہاہے،اس کا موقف اسی کے الفاظ میں ثابت ہو۔
سب سے پہلے یہ الزام تاریخ بغداد میں خطیب بغداد نے لگایاہے۔چنانچہ خطیب بغدادی تاریخ بغداد میں لکھتے ہیں۔
ویُحکی عن عیسی انہ کان یذھب الی القول بخلق القران(تاریخ بغداد جلد12صفحہ 482،)عیسی بن ابان سےنقل کیاجاتاہے کہ وہ خلق قران کا عقیدہ رکھتے تھے۔
یہی بات حافظ ذہبی نے بھی تاریخ الاسلام میں دہرایاہے:
 ويُحکی عنه القول بخلق القرآن، أجارنا الله، وهو معدودٌ من الأذكباء(تاریخ الاسلام للذہبی ،صفحہ 312،جلد16) ان سے خلق قران کا قول نقل کیاگیاہے اللہ ہمیں اس سے بچائے،اور وہ ذہین ترین لوگوں میں سے ایک تھے۔
یہی بات ابن جوزی نے بھی کہی ہے:
ويذكر عنه أنه كَانَ يذهب إِلَى القول بخلق القرآن.( المنتظم في تاريخ الأمم والملوك۱۱؍۶۷،دارالکتب العلمیۃ،بیروت)اوران کے بارے مین ذکر کیاجاتاہے کہ ان کا موقف خلق قرآن کا تھا۔
واضح رہے کہ خطیب بغدادی نے جس سند سے اس حدیث کو روایت کیاہے اس میں بعض مجہول اور بعض ضعیف راوی ہیں ،جس کی وجہ سے یہ سند اس قابل نہیں کہ اس کی وجہ سے کسی پر خلق قرآن کا سنگین الزام عائد کیاجائے،علاوہ ازیں خطیب نے اس روایت کو نقل کرنے کے باوجود خلق قرآن کے الزام کو صیغہ تمریض کے ساتھ بیان کیاہے،اگریہ سند ان کے نزدیک صحیح ہوتی تو وہ اس کو ضرور بالضرور جزم اورقطعیت کے ساتھ نقل کرتےاوریہی بات حافظ ذہبی کے بارے میں بھی کہی جاسکتی ہے جن کے رجال کی معرفت اور علم جرح وتعدیل میں گہرائی وگیرائی پر اتفاق ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ دو مورخ یعنی خطیب بغدادی اورحافظ ذہبی اس قول کو تمریض کے صیغہ کے ساتھ نقل کرتے ہیں ،جواس بات کی نشاندہی ہے کہ ان کا خلق قران کے عقیدہ کا حامل ہونا کمزور بات ہے،کوئی پکی بات نہیں ہے،چنانچہ خود حافظ ذہبی نے جب سیر اعلام النبلاء میں ان کا ترجمہ نقل کیا تو عقیدہ خلق قران کے حامل ہونے کی بات نقل نہیں کی ؛کیونکہ وہ پکی بات نہ تھی؛چنانچہ سیراعلام النبلاء میں حافظ ذہبی عیسی بن ابان کے ترجمہ میں محض اتنا ہی نقل کرتے ہیں ۔
فَقِيْهُ العِرَاقِ، تِلْمِيْذُ مُحَمَّدِ بنِ الحَسَنِ، وَقَاضِي البَصْرَةِ.حَدَّثَ عَنْ: إِسْمَاعِيْلَ بنِ جَعْفَرٍ، وَهُشَيْمٍ، وَيَحْيَى بنِ أَبِي زَائِدَةَ.وَعَنْهُ: الحَسَنُ بنُ سَلاَّمٍ السَّوَّاقُ، وَغَيْرُهُ.وَلَهُ تَصَانِيْفُ وَذَكَاءٌ مُفْرِطٌ، وَفِيْهِ سَخَاءٌ وَجُودٌ زَائِدُ.تُوُفِّيَ: سَنَةَ إِحْدَى وَعِشْرِيْنَ وَمائَتَيْنِ.أَخَذَ عَنْهُ: بَكَّارُ بنُ قُتَيْبَةَ. (سیراعلام النبلاء للذہبی10/441)
عراق کے فقیہ ہیں۔محمد بن الحسن کے شاگرد ہیں اوربصرہ کے قاضی تھے۔انہوں نے اسماعیل بن جعفر،ہشیم، یحیی بن ابی زائدہ سے روایت بیان کی ہے اوران سے حسن بن سلام السواق اوردیگر نے روایت بیان کی ہے۔ان کی متعدد تصانیف ہیں وہ بہت زیادہ ذہین تھے اسی کے ساتھ وہ بہت سخی بھی تھے۔221میں ان کا انتقال ہوا۔
اگرخلق قران کے عقیدہ کی بات پکی ہوتی توکیایہ مناسب تھاکہ حافظ ذہبی اس کا یہاں ذکر نہ کرتے ،ضرورکرتے جیساکہ سیراعلام النبلاء میں انہوں نے دوسرے خلق قران کے عقیدہ کے حاملین کا ذکر کیاہے،پھردیکھئے حافظ ذہبی میزان الاعتدال میں ان کا صرف ایک سطری جملہ لکھتے ہیں اوراس میں بھی خلق قران کے عقیدہ کا کوئی تذکرہ نہیں کرتے، بلکہ صاف صاف یہ کہتے ہیں کہ مجھے نہیں معلوم کہ کسی نے ان کی توثیق یاتضعیف کی ہے۔
عيسى بن أبان، الفقيه صاحب محمد بن الحسن ما علمت أحدا ضعفه ولاوثقه
 (ميزان الاعتدال : ج5، ص 374)
خلق قران کاعقیدہ کا حامل ہونابجائے خود ایک جرح ہے اوراس کے حاملین مجروح رواۃ میں شمارہوتے ہیں اورکسی کے مجروح یاضعیف راوی ہونے کیلئے اس کاخلق قران کے عقیدہ کا حامل ہونابھی کافی ہے، اس کے باوجود حافظ ذہبی صاف صاف کہہ رہے کہ ماعلمت احدا ضعفہ ولاوثقہ کیایہ اس کی بات بالواسطہ صراحت نہیں ہے کہ عیسی بن ابان کی جانب خلق قران کا جوعقیدہ منسوب کیاگیاہے ،وہ غلط اوربے بنیاد اورانتہائی کمزور ولچربات ہے،
ان سب  کے برخلاف حافظ ابن حجر لسان المیزان میں لکھتے ہیں:
لكنه كان يقول بخلق القرآن ويدعو الناس إليه(لسان الميزان :ابن حجر: 4/390)
عیسی بن ابان نہ صرف خلق قرآن کے قائل تھے بلکہ وہ اس کے داعی بھی تھے۔
حافظ ابن حجر کے علاوہ کسی بھی دوسرے ترجمہ نگارنے جس میں شوافع اوراحناف سبھی شامل ہیں، عیسی بن ابان پر خلق قرآن کے عقیدہ کا الزام نہیں لگایاہے،چاہے وہ مشہور شافعی فقیہ ابواسحاق شیرازی صاحب طبقات الفقہاء ہوں، حافظ عبدالقادر قرشی ہوں، حافظ قاسم بن قطلوبغاہوں۔
اس تفصیل سے یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ خلق قرآن کا الزام لگانے کے سلسلے میں حافظ ابن حجر منفرد ہیں اور انہوں نے اپنے دعویٰ کی بھی کوئی دلیل بیان نہیں کی ہے،اور دعویٰ کی جب تک کوئی دلیل نہ ہو ،اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔
حافظ ابن حجر نے خلق قران کی بات ضرور نقل کی ہے اوراس کاداعی بھی بتایاہے لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایاکہ ان کے سامنے ایسی کونسی نئی بات اورنئی دلیل تھی کہ جو چیز خطیب بغدادی اور ذہبی کے یہاں صیغہ تمریض کے ساتھ اداکی جارہی تھی ، وہ یہاں آکر صیغہ جزم میں بدل گئی ،اورجس میں وہ محض ایک عقیدہ کے حامل نظرآتے ہیں ،وہ یہاں آکر داعی میں بدل جاتے ہیں،جتنے ماخذ اس وقت تک ہمارے سامنے ہیں، اس میں سے کسی سے بھی حافظ ابن حجر کے قول کی تائید نہیں ہوتی۔
علم جرح وتعدیل کی رو سے بھی حافظ ابن حجر کی یہ بات اس لئے غیرمعتبر ہے کہ حافظ ابن حجر عیسی بن ابان کے معاصر نہیں، بہت بعد کے ہیں، لازما ان کی یہ بات کسی اور واسطہ اورسند سے منقول ہونی چاہئے،اورسند یاکسی معاصر شخصیت کی شہادت کا اہتمام خود حافظ ابن حجر نے نہیں کیاہے، اس لئے کہاجاسکتاہے کہ علم جرح وتعدیل کی رو سے ان کی یہ بات ناقابل قبول ہے۔
اگرکوئی یہ کہے کہ لسان المیزان میں حافظ ابن حجر کے ذہبی پر بہت سارے تعقبات  اوراضافے ہیں، اس میں سے ایک یہ بھی ہے، اس کے جواب میں ہم عرض کریں گے کہ جہاں بھی حافظ ابن حجر نے ذہبی کے کسی قول پر اعتراض کیاہے، باحوالہ کیاہے،محض اپنے قول کے طورپر ذکر نہیں کیاہے۔
ہاں جن لوگوں کواصرار ہے کہ وہ خلق قران کے عقیدہ کے حامل اورداعی تھے توانہیں چاہئے کہ وہ ان کی معاصرکسی شخصیت کا کوئی قول یاکوئی سند پیش کریں۔
دوسری بات یہ ہے کہ خلق قرآن کےالزام کی حقیقت پر غورکرنے کیلئے چند باتیں ذہن میں رکھنی ضروری ہے،ایک تویہ کہ یہ عقیدہ خلق قران ایک مبہم لفظ ہے،محض کسی کا یہ کہہ دینا کہ فلاں  خلق قرآن کا قائل تھا،کافی نہیں ہے، یہ واضح ہوناچاہئے کہ وہ کن الفاظ میں خلق قرآن کا قائل تھا، ورنہ تو خلق قرآن کا الزام یا دیگر سنگین الزامات مشہور محدثین پر بھی لگے ہیں،لیکن جب ان کے ہی الفاظ میں ان کےموقف کو جاناگیاتو حقیقت واضح ہوگئی ۔
اس کی واضح مثال خود امام بخاری کا واقعہ ہے جب امام ذہلی سے وابستہ ایک شخص نے امام بخاری سے اس مسئلہ میں پوچھاتوانہوں نے اس مسئلہ کی حقیقت کوصاف اورواضح کرتے ہوئے کہاتھاکہ جوقران کی کی تلاوت ہم کرتے ہیں، وہ افعال مخلوق ہونے کے لحاظ سے مخلوق ہے ورنہ قران کلام اللہ ہونے کے لحاظ سے غیر مخلوق ہے۔ان کے الفاظ ہیں،القران کلام اللہ غیرمخلوق،وافعال العباد مخلوقۃ والامتحان بدعۃ(ہدی الساری494) اگر خلق قرآن کے سلسلے میں ہمارے سامنے امام بخاری کی عبارت نہ ہو محض ذہلی کا بیان اور ابوحاتم وابوزرعہ کی تنقید ہو توکوئی بھی امام بخاری کو خلق قرآن کے عقیدہ کا قائل قراردے دے گا۔دوسری بات یہ بھی ہے خلق قرآن کے معاملہ میں امام احمد بن حنبل کی آزمائش کے بعد امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ اوردیگر محدثین انتہائی شدید ذکی الحس ہوگئے اوراس تعلق سے اگرکوئی ان کے الفاظ سے ہٹ کر کچھ کہتاتو وہ اسے برداشت نہ کرتےاورفورا اس کے متروک اورضعیف ہونے یاخلق قرآن کے قائل ہونے کی بات کہہ دیتے تھے۔تفصیل کیلئے شیخ عبدالفتاح ابوغدہ کی تصنیف لطیف وقیم "مسألة خلق القرآن وأثرها في صفوف الرواة والمحدثين وكتب الجرح والتعديل"کی جانب رجوع کریں۔اس میں انہوں نے تفصیل کے ساتھ بحث کی ہےاورحوالوں کے ساتھ بتایاہےکہ آگے چل کر اس مسئلہ میں محدثین کے درمیان کس قدر غلو  ہوگیا تھا۔

انتقال:آپ تادم واپسیں بصرہ کے قاضی رہے،آپ کو معزول کرنے کی بعض حضرات نے کوشش کی لیکن  قاضی القضاۃ یحیی بن اکثم اور ابن ابی داؤد تک کو آپ کو معزول کرنے کی ہمت نہیں ہوئی،محمد بن عبداللہ کلبی کہتے ہیں کہ میں انتقال کے وقت ان کے پاس موجود تھا، انہوں نے مجھ سے کہاکہ ذرا میرے مال ودولت کا شمار تو کردو،میں نے گنا تو بہت زیادہ مال نکلا، پھر انہوں نے فرمایاکہ اب مجھ پر جو قرضے ہیں، ان کو جوڑ کر بتائوکہ کل قرضہ کتنا ہے؟جب میں نے ان کے قرضوں کو جوڑا توپایاکہ یہ ان کی کل مالیت کے قریب ہے، اس پر عیسی بن ابان کہنے لگے ،اسلاف کہاکرتے تھے کہ زندگی مال داروں کی سی جی جیئو اور موت فقیروں کی سی ہونی چاہئے۔(اخبارابی حنیفۃ واصحابہ۱؍۱۴۹)
بالآخر وہ گھڑی آہی گئی جس سے ہرایک کو دوچار ہونا ہے، اورجونہ ٹل سکتی ہے، نہ آگے پیچھے ہوسکتی ہے، ماہ صفر کی ابتدائی تاریخ اور سنہ ۲۲۱ہجری میں علم کا یہ آفتاب غروب ہوگیا۔
امام عیسی بن ابان کاانتقال کب ہوا، اس بارے میں مورخین کے اقوال مختلف ہیں،بعض نے220ہجری قراردیاہے جب کہ بعض نے 221ہجری بتایاہے۔لیکن 221کاقول زیادہ معتبر ہے ،کیونکہ خلیفہ بن خیاط جن کا انتقال عیسی بن ابان کے محض ۱۹-۲۰؍سال بعد ہوا ہے،انہوں نے عیسی بن ابان کی تاریخ وفات ۲۲۱ہجری ہی بتائی ہے،علاوہ ازیں خطیب بغدادی نے تاریخ بغداد میں سند کے ساتھ نقل کیاہے کہ ماہ صفر کی ابتداء221ہجری میں ان کاانتقال ہوگیا۔اسی طرح حافظ ذہبی نے تاریخ الاسلام اورسیر اعلام النبلاء میں بھی تاریخ وفات 221ہجری ہی ذکرکیاہے اورحافظ ذہبی چونکہ انتقال کی تاریخ وغیرہ بتانے میں کافی محتاط ہیں اوراس سلسلے میں بہت احتیاط اورتحقیق سے کام لیتے ہیں لہذا ان مورخین کی بات زیادہ معتبر ہے۔




[1] :یہ شاید وہی کتاب ہے جس کانام شیخ زاہد الکوثری ؒ نے الحجج الکبیر فی الرد علی الشافعی القدیم نے لکھاہے۔
[2] :یہ سفیان بن سحبان حنفی ہیں اورامام محمد کےشاگرد ہیں (تاج التراجم لابن قطلوبغا ۱؍۱۷۱)
[3] :تاریخ بغداد میں ایساہی ہے لیکن صحیح ابن سحبان ہے جیساکہ الفہرست لابن الندیم اور تاج التراجم لابن قطلوبغا میں ہے۔
[4] :صحیح سفیان بن سحبان ہے جیساکہ ماقبل میں وضاحت کی جاچکی ہے۔
مکمل تحریر اور تبصرے>>